کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 33
عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف وغیرہ شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ان کی لاشوں کو کنویں میں ڈال دیا جائے، آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صحابہ نے ان کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دیا، ماسوائے امیہ کی لاش کے وہ کنویں میں نہیں ڈالی جا سکی، اس کی وجہ اس کا موٹاپا تھا۔ جب اس کی لاش کو گھسیٹا گیا تو کنویں تک پہنچنے سے پہلے اس کے جوڑ جوڑ علیحدہ ہو گئے۔ (48) فتح کے بعد رسول اللہ میدان جنگ میں تین دن قیام فرمایا کرتے تھے۔ حسب معمول آپ نے دو روز قیام کے بعد تیسرے روز اپنی سواری کی تیاری کا حکم فرمایا۔ سواری تیار کر دی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل ہی چل دئیے۔ صحابہ کرام بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہو لئے، صحابہ کرام سمجھ گئے کہ آپ کسی خاص ضرورت کی وجہ سے کہیں جا رہے ہیں۔ جب آپ کنویں کے قریب پہنچے وہاں پہنچ کر آپ کنویں پر تشریف لے گئے اور کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ نے مقتولین کو ان کے نام اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارا ’’اے فلاں بیٹے فلاں کے! کیا تمہیں اب اس بات کی خواہش ہے کہ کاش تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ بےشک ہمارے رب نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ پورا کر دیا۔ کیا تم نے بھی اس وعدہ کو سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جسموں سے بات کر رہے ہیں جن میں روح نہیں؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو؟‘‘ (49) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤسائے مکہ اور بےشمار جنگی قیدیوں اور مال غنیمت کے ہمراہ مدینہ میں داخل ہوئے تو منافقین اور بت پرستوں کے دل دہل گئے۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے اب بہتری اسی میں ہے کہ اسلام قبول کر لیا جائے۔ الغرض وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے