کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 32
(فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ ا للّٰهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ ا للّٰهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ ا للّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٧﴾) (46) ’’تو (اے مسلمانو!) تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے نبی) آپ نے (خاک) نہیں پھینکی جس وقت آپ نے پھینکی لیکن اللہ نے پھینکی اور تاکہ عطا فرمائے ایمان والوں کو اپنی طرف سے عطائے جمیل، بےشک اللہ ہے بہت سننے والا سب کچھ جاننے والا۔‘‘ سپاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مادی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، چونکہ عرش پر مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ ہو چکا تھا اس لئے رب العزت نے مٹھی بھر صحابہ کی امداد کے لئے آسمانوں سے فرشتے نازل فرمائے اور میدان جہاد میں مسلمان سرخرو ہوئے۔ جس وقت کفار میدان جنگ سے کلیۃً شکست کھا گئے اور ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون ہے جو جا کر دیکھے کہ ابوجہل کس حال میں ہے‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے انہوں نے اس کی داڑھی پکڑ کر پوچھا: ’’کیا تو ہی ابوجہل ہے؟‘‘ اس نے کہا کیا ہوا اگر کسی آدمی کو اسی کی قوم نے قتل کر دیا۔ یہ قتل میرے لئے کوئی باعث ننگ و عار نہیں۔ بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ اسے تو انصاری لڑکوں نے قتل کیا ہے تو کہنے لگا کاش مجھے کاشتکاروں کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔ (47) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مکہ نے آج اپنے جگر پاروں کو میدان فرقان میں اُگل دیا تھا۔ یہ وہ سردار تھے جو دارالندوۃ میں شمع ہدایت کے گل کر دینے پر متفق ہو گئے تھے۔ ان میں گیارہ صنادید قریش تھے جو میدان بدر میں تہ تیغ ہوئے۔ کفار کے چوبیس سردار مارے گئے جن میں ابوجہل، عقبہ، شیبہ بن ربیعہ،