کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 28
دونوں لڑکوں کو اشارہ سے بتایا کہ وہ ابوجہل ہے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ شاہین کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو قتل کر دیا۔ یہ دونوں لڑکے عفراء کی اولاد میں سے تھے۔ ایک کا نام معاذ بن عفراء اور دوسرے کا نام معاد بن عمرو بن جموح تھا۔ ابوجہل کو قتل کرنے کے بعد دونوں لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ابوجہل کے قتل کی) خوشخبری سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟‘‘ ان میں سے ہر ایک لڑکے نے کہا: ’’میں نے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کر لیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں پھر فرمایا کہ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ (36) (ابھی) انفرادی مقابلے جاری ہی تھے کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کی طرف پیش قدمی کر دی حتیٰ کہ وہ مسلمانوں کے قریب آ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی اور جنت کی بشارتیں سنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس جنت میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے مساوی ہے۔‘‘ حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسی جنت میں جس کی عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ انہوں نے (یعنی صحابی) نے کہا: ’’واہ، واہ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’واہ، واہ‘‘ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم میں نے اس امید میں یہ بات کہی تھی کہ میں جنتی ہو جاؤں گا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بےشک تم جنتی ہو‘‘ یہ سن کر حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش میں سے کچھ کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے، پھر کہنے لگے، اگر میں ان کھجوروں کے ختم ہونے تک زندہ رہا