کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 275
’’اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہے۔یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں ان کے پاس سے چلا آیا‘‘ ایک دن حضرت کعب رضی اللہ عنہ بازار میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شام کا ایک نبطی نصرانی شخص جو غلہ بیچنے آیا تھا، انہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہے لیکن کسی شخص نے ان کا نام لے کر نہیں بتایا، جس کسی نے بھی بتایا، اشارہ سے بتایا، آخر کار وہ شخص حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، وہ بادشاہ غسان کا ایک خط لایا تھا، اس خط میں بادشاہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو یہ لکھا تھا: ہم نے سنا ہے کہ تمہارے دوست نے تم پر ظلم کیا ہے، اللہ نے تمہیں ذلت کی جگہ اور حق تلفی کے مقام میں رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا، تم ہمارے پاس چلے آؤ، ہم بڑی خاطر سے پیش آئیں گے۔ خط پڑھ کر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے، انہوں نے فوراً اس خط کو جلا دیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے سب سے بڑا غم اس بات کا تھا کہ کہیں میں اسی حال میں نہ مر جاؤں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھیں یا کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اسی حال میں چھوڑ جائیں تو کوئی بھی میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھے۔ جب مقاطعہ کو چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا۔ اس آدمی نے حضرت کعب سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی کو علیحدہ کر دو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا طلاق دے دوں اور اگر طلاق نہ دوں تو پھر کیا کروں؟‘‘ اس آدمی نے کہا: ’’بس خلط ملط اور تعلقات زوجیت نہ رکھو‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: ’’تم اپنے گھر چلی جاؤ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے اور وہیں رہو جب تک اللہ کی طرف سے کوئی دوسرا حکم نہ ملے‘‘