کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 274
ان پر تنگ ہو چکی تھی۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کوہ سلع سے آنے والی آواز سنی تو سمجھ گئے کہ ان کی توبہ قبول ہو گئی۔ اور تنگی دور ہو گئی۔ فوراً سجدہ میں گر پڑے (اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا) اتنے میں لوگ ان کے پاس آنے شروع ہو گئے۔ جب وہ شخص جس نے کوہ سلع پر چڑھ کر بشارت دی تھی۔ ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر اسے دے دئیے۔ اس روز ان کے پاس ان کپڑوں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے۔ لہٰذا انہوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے عاریتاً کپڑے مانگ کر پہنے۔ کپڑے پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوئے۔ راستہ میں لوگ جوق در جوق انہیں ملتے اور انہیں توبہ قبول ہونے پر مبارکباد دیتے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب کو آتے دیکھا تو فوراً ان کی طرف بڑھے، مصافحہ کیا اور قبولیت توبہ کی مبارکباد دی۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ مہاجرین میں سے اور کوئی نہ تھا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں ان کے احسان کو عمر بھر نہ بھولوں گا۔ الغرض حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پر سرور اور ہنس مکھ چہرے سے فرمایا: ’’تمہیں بشارت ہو کہ پیدائش سے لے کر اب تک اس سے بہتر دن تمہارے لئے کوئی نہیں گزرا‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اس کیفیت کو پہچان لیا کرتے تھے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی توبہ کی قبولیت کے شکریہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت