کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 272
میرے لئے بڑا اچھا نمونہ ہے (ان کے ہی طریقہ پر مجھے سچائی پر قائم رہنا چاہیے) اس کے بعد وہ لوگوں سے آگے نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان تینوں سے بات کرنے کی ممانعت کر دی۔ ممانعت کے بعد تمام مسلمان ان سے دور رہنے لگے اور بالکل ایسے ہو گئے گویا ان سے شناسائی ہی نہیں تھی۔ حضرت مرارہ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنے گھروں سے نکلنا بند کر دیا۔ انہوں نے (رات، دن) رونا شروع کر دیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک نوجوان اور طاقتور آدمی تھے، لہٰذا وہ برابر مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے (مسجد) آتے رہے اور بازار میں بھی آتے جاتے تھے لیکن ان سے کوئی بات نہ کرتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھی حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنی (نماز کی) جگہ بیٹھے ہوتے، وہ آتے اور آپ کو سلام کرتے اور یہ دیکھتے رہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دینے میں اپنے ہونٹ ہلائے یا نہیں۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھنے لگتے اور کن انکھیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے (کہ آپ ان کی طرف دیکھتے ہیں یا نہیں) حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوتے اور جب میں نماز پڑھ کر آپ کی طرف دیکھتا تو منہ پھیر لیتے‘‘ حضرت کعب کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی ترش روئی نے طول کھینچا تو ایک دن میں اپنے چچا زاد بھائی قتادہ کی دیوار پر چڑھ گیا، وہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب تھے، میں نے ان کو سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انہوں نے مجھے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر قسم دے کر پوچھا، وہ پھر خاموش رہے ، میں نے پھر قسم دے کر پوچھا ، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو کہا