کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 271
بچا لیتا۔ اللہ کی قسم! مجھے بحث کرنے کا خوب ملکہ ہے، لیکن اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں جھوٹ بول کر آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی بھی کر لوں تو عنقریب اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (پھر) مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر میں سچ سچ کہہ دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس وقت تو ناراض ہو جائیں گے (لیکن پھر عنقریب مجھ سے خوش ہو جائیں گے کیونکہ) میں اس معاملہ میں اللہ سے معافی کی امید رکھتا ہوں۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کوئی عذر نہیں تھا۔ اللہ کی قسم! میں ایسا قوی اور فارغ البال بھی کبھی نہیں تھا جتنا کہ اس موقع پر (تھا)‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہوں نے بالکل سچ سچ کہہ دیا‘‘ پھر آپ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تم جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ کرے‘‘ حضرت کعب اٹھ کر چلے، قبیلہ بنو سلمہ کے کچھ لوگ بھی اٹھ کر ان کے ساتھ چلے۔ راستہ میں وہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! ہمیں تو علم نہیں کہ اس سے پہلے تم نے کبھی کوئی گناہ کیا ہے۔ جس طرح منافقین نے عذر پیش کیا۔ اسی طرح عذر پیش کرنے سے تم عاجز تھے؟ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس گناہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے مغفرت کافی ہو گی‘‘ غرضیکہ یہ لوگ انہیں برابر ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے چاہا کہ واپس جا کر تکذیب کر دیں (یعنی یہ کہیں کہ جو پہلے کہا تھا وہ صحیح نہیں تھا، انہیں یہ وسوسہ آ ہی رہا تھا کہ اسی دوران) انہوں نے پوچھا: ’’کیا اس حال میں کوئی اور میرا شریک ہے؟ ‘‘ ان لوگوں نے کہا: ’’ہاں دو شخص اور ہیں جنہوں نے وہی کہا ہے جو تم نے کہا ہے اور ان سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا ہے جو تم سے فرمایا ہے‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’وہ دونوں کون ہیں‘‘ انہوں نے کہا: ’’حرارہ بن ربیع عمری اور بلال بن امیہ واقفی‘‘ یہ سن کر حضرت کعب نے سوچا یہ دونوں بڑے صالح آدمی ہیں، جنگ بدر میں شریک ہو چکے ہیں، ان کے رویہ میں