کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 27
لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، جنتوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ان میں سونے کے کنگن انہیں پہنائے جائیں گے اور موتی، اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ اور ان کو (دنیا میں) ہدایت دی گئی پاکیزہ بات کی اور حمد کہتے ہوئے (ادب) کے راستہ کی طرف ان کی رہنمائی کی گئی۔ (35) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کا بیان ہے کہ جنگ کی بھٹی تیزی سے سلگی ہوئی تھی، میں صف میں کھڑا تھا، اچانک نظر پڑی تو دیکھا دو انصاری نوجوان دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں نوجوانوں کی وجہ سے اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کیا۔ وہ ابھی انہیں خیالات میں تھے کہ اتنے میں اچانک ایک نوجوان نے دوسرے سے چھپاتے ہوئے ان کو ہاتھ سے دبایا اور دریافت کیا: ’’اے چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟‘‘ حضرت عبدالرحمٰن نے فرمایا: ’’ہاں پہچانتا ہوں‘‘ اس نوجوان نے کہا: ’’مجھے بتائیے ان میں ابوجہل کون سا ہے‘‘ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے بھتیجے! تم ان کا کیا کرو گے‘‘ نوجوان نے کہا: ’’مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ لہٰذا میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ اگر میں اسے دیکھوں گا تو قتل کر دوں گا یا خود شہید ہو جاؤں گا۔‘‘ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کو اس نوجوان کی بات سے بہت تعجب ہوا، اسی طرح دوسرے لڑکے نے بھی اپنے ساتھی سے چھپا کر حضرت عبدالرحمٰن سے اسی قسم کی باتیں کیں۔ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں (کہ یہ باتیں سننے کے بعد) اب مجھے وہ تمنا اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان نوجوانوں کے بجائے میرے دائیں بائیں دو مرد ہوتے۔ تھوڑی دیر بعد ابوجہل دکھائی دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے ان