کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 269
ان کے دل پارہ پارہ ہو جائیں۔ اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ حضرت کعب بن مالک کو جب یہ خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ کوئی ایسا حیلہ سوچنا چاہیے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی سے بچ جائیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے گھر کے ذی عقل لوگوں سے بھی مشورہ لیا (لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکے) پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں تو یہ خیال بالکل ان کے دل سے جاتا رہا (انہوں نے حیلہ بنانے کا خیال ترک کر دیا) انہیں یقین ہو گیا کہ جھوٹ بول کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے نہیں بچ سکتے لہٰذا انہوں نے قطعی طور پر فیصلہ کر لیا کہ وہ سچ ہی بولیں گے۔ (خواہ اس کا انجام کچھ ہی ہو) (46) حضرت سائب رضی اللہ عنہ اور دوسرے بچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے مدینہ منورہ سے باہر گئے اور تنیۃ الوداع کی گھاٹی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ (47) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے مسجد نبوی میں بیٹھ گئے۔ منافقین بھی آئے اور جیسا کہ اللہ نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ عدم شرکت کے لئے اپنے عذر پیش کرنے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ ان لوگوں کی تعداد اَسی سے کچھ زیادہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول فرمائے۔ ان سے (ازسرنو) بیعت لی اور (ان کی ظاہری توبہ پر) ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگی اور ان کے دل کے بھیدوں کو اللہ کے سپرد کیا۔ (48) ان منافقین میں پندرہ آدمی عقبہ والے کہلاتے ہیں۔ ان میں سے تین