کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 261
نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کیا تم نے چشمہ کے پانی کو ہاتھ لگالیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملامت کی، انہوں نے کہا: جی ہاں! اور جو کچھ اللہ نے چاہا، آپ نے کہا: چشمہ میں جوتی کے تسمے کے برابر پانی تھا۔ جو بہت آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی لے کر ایک برتن میں جمع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ اس میں دھوئے۔ پھر وہ پانی چشمے میں ڈال دیا گیا۔ پانی ڈالتے ہی چشمہ جوش مارنے لگا، یہاں تک کہ لوگوں نے (آدمیوں اور جانوروں کو) پانی پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے معاذ! اگر تمہاری زندگی رہی تو تم دیکھو گے کہ اس (چشمہ) کا پانی باغوں کو سیراب کرے گا‘‘ (29) تبوک کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا (اور دشمن کا انتظار کرنے لگے) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج رات کو سخت آندھی آئے گی، لہٰذا تم میں سے کوئی شخص کھڑا نہ ہو، جس کے پاس اونٹ ہو، اسے چاہئے کہ اسے باندھ دے‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حکم کی تعمیل کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق رات کو سخت آندھی آئی، ایک شخص (اتفاق سے) کھڑا ہو گیا۔ ہوا نے اسے اڑا کر طیبی پہاڑ پر پھینک دیا۔ (30) ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک ہی میں قیام فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا: ’’سترہ کتنا اونچا ہونا چاہئے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر‘‘ (یعنی تقریباً 26 سینٹی میٹر) ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ((هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا ا للّٰهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ