کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 259
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہو جائے گا) حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمام مسلمانوں نے جنگ کی تیاری مکمل کر لی اور میں کاہلی سے کام لیتا رہا۔ میں یہ سمجھتا تھا جب چاہوں گا تیاری کر لوں گا، میں اس پر قادر ہوں، میں آج کل، آج کل کرتا رہا، یہاں تک کہ کافی وقت گزر گیا۔ درختوں پر بہار آ رہی تھی، پھل پختہ ہو چکے تھے، یہی چیزیں میری توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں (اور میں ان میں اُلجھ کے رہ گیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے مقابلہ کی جلدی تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید انتظار کئے بغیر جمعرات کے دن بوقت صبح مدینہ منورہ سے روانہ ہو گئے۔ حضرت کعب بن مالک نے ابھی تک کوئی سامان نہ کیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ سامان مہیا کر کے ایک دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں جا ملوں گا، لہٰذا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ نہ ہوئے، لیکن پھر وہ آج کل آج کل کرتے رہے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بڑی تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے تبوک کے مقام پر پہنچ گئے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں: ’’میں نے قصد کیا اب بھی روانہ ہو جاؤں اور کاش میں چل دیتا تو کتنا اچھا ہوتا، لیکن (افسوس یہ جہاد) میری قسمت میں نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں گھر سے نکلتا تو منافقوں اور معذوروں سے ملاقات ہوتی (اور کوئی نظر نہ آتا) مجھے اس بات سے سخت صدمہ ہوتا تھا۔ (26) دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزرے، جہاں قوم ثمود رہتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس عذاب زدہ علاقہ کے کنویں کا پانی نہ بھریں اور نہ یہاں کا پانی پئیں۔ لوگوں نے کہا: ’’ہم نے تو پانی بھر لیا اور اس سے آٹا بھی گوندھ لیا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آٹا پھینک دو اور پانی بہا دو اور صرف اس کنویں سے پانی بھرو جس کنویں سے