کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 258
مدینہ میں چھوڑ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تسلی دیتے ہوئے) فرمایا: ’’کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے (یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام ہارون علیہ السلام کو چھوڑ کر کوہ طور پر چلے گئے تھے۔ اسی طرح میں بھی تمہیں اس عارضی غیر حاضری میں چھوڑ کر جا رہا ہوں) ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا‘‘ (25) حضرت کعب بن مالک اس جہاد میں شریک نہ ہو سکے وہ خود بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے میں کبھی اتنا قوی اور اتنا فارغ البال نہیں تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے کسی بھی لڑائی میں میں نے اپنے لئے دو سواریاں جمع نہ کی تھیں۔ اس لڑائی میں میں نے دو سواریاں تیار کر رکھی تھیں (اور شریک جہاد ہونے کا پختہ ارادہ تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عموماً یہ طریقہ تھا کہ جب آپ کسی جنگ کے لئے تشریف لے جاتے تو اس کو صراحتاً ظاہر نہ فرماتے بلکہ دوسری لڑائی کے ضمن میں اس کا بھی ذکر فرما دیتے۔ لیکن اس لڑائی میں کیونکہ منزل بہت دور تھی، دور دراز کا سفر تھا، سخت گرمی کا موسم تھا اور کفار کی تعداد بہت زیادہ تھی، مسلمان سمجھ چکے تھے کہ ان کا مقابلہ کثیر تعداد فوجوں سے ہو گا، لہٰذا آپ نے بھی صاف بتا دیا کہ کس سے مقابلہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان بھی کثیر تعداد میں تھے۔ مسلم میں ہے: ’’ان کی تعداد دس ہزار سے زائد تھی‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حاضری کا کوئی (باقاعدہ) رجسٹر نہیں ہوتا تھا اور نہ حاضری رجسٹر کی چنداں ضرورت تھی کیونکہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بات بذریعہ وحی معلوم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا کوشش کرتا تھا کہ غیر حاضر نہ رہے (ورنہ اس کی غیر حاضری کا علم