کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 257
نہ لے چلوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار کرتے ہوئے سنا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میری بات کو جھوٹ سمجھو‘‘ دوستوں نے کہا: ’’تم سچے ہو اور اگر تم تصدیق کرنا بہتر سمجھتے ہو تو ہم ایسا بھی کر لیں گے‘‘ الغرض حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ان میں سے ایک آدمی کو لے کر ان لوگوں کے پاس پہنچے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار کرتے ہوئے سنا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ (22) کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے کچھ اور اونٹ آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان میں سے پانچ اونٹ ابو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو دے دئیے جائیں، حکم کی تعمیل میں پانچ اونٹ انہیں دے دئیے گئے۔ جب وہ اونٹ لے کر چلے گئے تو انہیں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم یاد نہ دلائی۔ ایسی صورت میں ہم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں قسم یاد دلانے کے لئے روانہ کیا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سواری نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری دے دی‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (میں نے قسم کھائی تھی) لیکن جب میں کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں اور پھر کسی دوسری بات کو اس سے زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تو زیادہ مناسب بات کو اختیار کر لیتا ہوں اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں‘‘ (24) تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو