کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 25
کرو بےشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنا (کارنامہ) دکھاتے ہوئے نکلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور اللہ ان کے سب کاموں پر (اپنے علم و قدرت کے ساتھ) محیط ہے۔‘‘ مذکورہ آیات کی روشنی میں میدان جہاد میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے ان باتوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ دشمن کی کثرت سے گھبرانا نہیں بلکہ ہر حال میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، زبان پر ذکرِ الٰہی، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت خواہ میدان جنگ میں سر کٹ رہے ہوں، اور عورتوں کے سہاگ اُجڑ رہے ہوں، اِس کے علاوہ باہمی ایک دوسرے کا احترام بھی کرنا ہو گا، صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے جہاد کا مقصد تو صرف رضائے الٰہی اور اعلاء کلمۃ اللہ ہی ہونا چاہیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہدایت کی کہ کافر جب قریب ہوں تو ان پر تیر چلانا، تیروں کو بچا بچا کر رکھنا (30) اور تم میں سے کوئی شخص کسی کی طرف پیش قدمی نہ کرے جب تک میں پیش قدمی نہ کروں۔ (31) جب کفار تمہارے قریب آ جائیں تو ان کو تیر مارو اور جب تک وہ تم سے مل نہ جائیں اپنی تلواروں کو مت سونتو۔ (یعنی جب تک وہ تلوار کی زد میں نہ آ جائیں، تلواریں میانوں سے مت نکالنا اور تیر ہی سے مارنا) (32) مشرکین مکہ اپنی کثرت کی وجہ سے دھوکے میں پڑ گئے، حالانکہ کفار کو جنگ میں اُلجھانے کے لئے قدرت نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھا دی، مسلمانوں کی کم تعداد دیکھ کر جب وہ لوگ لڑائی کے لئے تیار ہو گئے تو اللہ نے انہیں مرعوب کرنے کے لئے فرمایا: (قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللّٰه وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَا للّٰهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذٰلِكَ