کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 249
أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ ا للّٰهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ ﴿٥٥﴾)) (10) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے! تم خوشی سے مال خرچ کرو یا ناخوشی سے، تم سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ بےشک تم نافرمان قوم ہو، اور ان کے خرچ کے قبول کئے جانے سے ان کو محروم نہیں کیا مگر اسی بات نے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہوئے اور وہ نماز کو نہیں آتے مگر سستی کی حالت میں اور وہ نہیں خرچ کرتے مگر اس حالت میں کہ وہ ناخوش ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب میں نہ ڈالیں ان کے مال نہ ان کی اولاد۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے (مال اور اولاد کے) سبب دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جان اس حال میں نکلے کہ وہ کافر ہوں۔‘‘ ((وَيَحْلِفُونَ بِاللّٰه إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ ﴿٥٦﴾ لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ ﴿٥٧﴾)) (11) ’’اور وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ بےشک وہ ضرور تم میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ تم میں سے نہیں لیکن وہ لوگ (تم سے) ڈرتے ہیں۔ اگر وہ پائیں کوئی جائے پناہ یا غار یا داخل ہونے کی کوئی (اور) جگہ تو وہ اس کی طرف الٹے پھر جائیں رسیاں توڑاتے ہوئے۔‘‘ ((وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ﴿٥٨﴾ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ ا للّٰهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا ا للّٰهُ سَيُؤْتِينَا ا للّٰهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّٰه رَاغِبُونَ ﴿٥٩﴾)) (12) ’’اور کوئی ان میں سے وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرتا ہے صدقوں (صدقات) کے تقسیم کرنے میں اگر انہیں دے دیا جائے ان میں سے تو وہ راضی ہو جائیں گے اور اگر وہ نہ دئیے جائیں ان سے تو وہ فوراً ناراض ہو جاتے ہیں۔