کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 247
الْكَاذِبِينَ ﴿٤٣﴾ لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَا للّٰهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ ﴿٤٤﴾ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ ﴿٤٥﴾)) (5) ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیوں اجازت دے دی، یہاں تک کہ ظاہر ہو جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ لوگ جنہوں نے سچ بولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان لیتے جھوٹوں کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ رخصت نہ مانگیں گے وہ لوگ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں (کافروں سے) اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے سے اور اللہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی لوگ رخصت مانگتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑ گئے تو وہ اپنے شک میں حیران و پریشان ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد کی تیاریوں میں مصروف تھے اور منافقین غیر مستعد، اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا: ((وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً)) (6) ’’اور اگر وہ نکلنا چاہتے تو اس کے لئے سامان کی تیاری کرتے۔‘‘ منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ((وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ ﴿٤٩﴾)) (7) ’’اور کوئی ان (منافقین) میں سے وہ ہے جو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہتا ہے مجھے رخصت دیجئے اور فتنے میں نہ ڈالئے۔ سن لو! وہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور بےشک جہنم کافروں کو ضرور گھیرے ہوئے ہے۔‘‘ ((إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا