کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 246
کافروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بےوطن کیا۔ اس حال میں کہ وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غمگین نہ ہو، بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اللہ نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد فرمائی جنہیں تم نے نہ دیکھا۔ اور کافروں کی بات کو نیچا کر دیا، اور اللہ کا کلمہ ہی اونچا ہے، اور اللہ غلبہ والا بڑی حکمت والا ہے۔ نکلو ہلکے ہو کر خواہ بھاری ہو کر، اور جہاد کرو (کافروں سے) اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘ ارض جہاد قریب نہ تھی بلکہ یہ علاقہ دور دراز مقام پر واقع تھا۔ منافقین نے وہاں نہ جانے کا ارادہ کر لیا تو اللہ نے ان (منافقین) کے بارے میں ارشاد فرمایا: (لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَـٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللّٰه لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَا للّٰهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿٤٢﴾) (4) ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا) اگر وہ ایسا مال ہوتا جو قریب ہو اور سفر ہوتا درمیانہ تو وہ (منافقین) ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن سفر کی مسافت انہیں بہت دور اور پُرمشقت نظر آئی اور عنقریب وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے اگر ہم میں طاقت ہوتی تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکلتے وہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً وہ ضرور جھوٹے ہیں۔‘‘ منافقین نے جھوٹی قسمیں کھائیں اور جہاد میں شرکت نہ کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کئے، آخر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ جانے کی اجازت دے دی۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((عَفَا ا للّٰهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ