کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 24
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی بھیجی: (أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ ﴿٩﴾) ’’بےشک میں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔‘‘ جنگ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ ﴿١٥﴾ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰه وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿١٦﴾) (28) ’’اے ایمان والو! جب تمہارا سامنا کافروں کے لشکر سے ہو جائے تو ان سے پشت مت پھیرنا اور جو کوئی ان سے اپنی پشت اس روز پھیر لے گا سوائے اس کے کہ پینترا بدل رہا ہو لڑائی کے لئے یا (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لے رہا ہو، تو وہ اللہ کے غضب میں آ جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ دشمن سے مڈبھیڑ کی دعا کرنا ہی نہیں چاہیے۔ اگر یہ نوبت آ جائے تو اس صورت میں میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا قرآن کی نظر میں ایک بہت بڑا جرم ہے۔ سوائے ان استثنیات کے کہ جن کا ابھی ذکر آیا ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا ا للّٰهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٤٥﴾وَأَطِيعُوا ا للّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ ا للّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٤٦﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّٰه ۚ وَا للّٰهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ﴿٤٧﴾) (28) ’’اے ایمان والو! جب دشمن کی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر