کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 239
اعتکاف کے لئے چلے گئے تھے، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں ایک لڑکی دی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی آزاد کر دئیے تو وہ (خوشی میں چلا چلا) کر یہ کہہ رہے تھے: ’’آپ نے ہمیں آزاد کر دیا‘‘ یہ آوازیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کان تک پہنچیں، انہوں نے پوچھا: ’’یہ کیا شوروغل ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی رہا کر دئیے (یہ وہی قیدی ہیں جو خوشی میں چلا رہے ہیں) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’اے عبداللہ! جاؤ اور اس لڑکی کو آزاد کرو، (13) جو مجھے خمس میں سے ملی تھی۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ ہی میں مقیم تھے (دھوپ کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑے کا سایہ کر دیا گیا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا ، اس نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اس شخص کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں جس نے عمرہ کا احرام باندھا اور اس سے خوشبو مہک رہی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، سانس تیزی سے آنے لگا، کچھ دیر بعد یہ کیفیت جاتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرہ کے متعلق سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟‘‘ لوگوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو خوشبو تمہارے بدن میں لگی ہوئی ہو، اسے تین مرتبہ دھو ڈالو اور وہ (خوشبو دار) جبہ اتار دو، اور پھر وہی کرو جو حج میں کیا کرتے ہو۔ (14) کافی دن تک جعرانہ میں قیام کے بعد ذوالقعدہ کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے لئے (مکہ مکرمہ) روانہ ہو گئے۔ (15) راستہ میں کچھ دیہاتیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگنے لگے، مانگتے مانگتے وہ آپ کو ایک درخت کے نیچے لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک اتار لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فرمایا: میری چادر مجھے دے دو۔ اگر ان درختوں کے برابر بھی بکریاں میرے پاس ہوتیں تو میں ان کو