کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 238
کو واپس کر دیں گے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے لوگوں سے فرمایا: میرے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو تم دیکھ رہے ہو (سب مال اور قیدی ان کی ملکیت میں جا چکے ہیں) طائف سے آنے کے بعد میں نے تمہارا کئی روز انتظار کیا (جب تم نے مسلمان ہو کر آنے میں دیر کی تو میں نے مال اور قیدی تقسیم کر دئیے) بہرحال میرے ساتھی مال یا قیدی دونوں میں سے ایک چیز کو واپس کرنے پر راضی ہو گئے ہیں‘‘ (اب تم بھی ایک چیز کو پسند کر لو مال غنیمت یا قیدی) جب انہوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا: ’’ہم اپنے قیدی واپس لینا چاہتے ہیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا۔ اللہ کی ایسی تعریف کی جو اس کی شان کے لائق ہے، پھر فرمایا: ’’اما بعد! یہ تمہارے بھائی توبہ قبول کر کے (یعنی اسلام قبول کر کے) تمہارے پاس آئے ہیں، میری رائے ہے کہ میں ان کے قیدی واپس کر دوں، پس جو شخص خوشی سے (بغیر معاوضہ) اپنا قیدی چھوڑ دے وہ ایسا کرے اور جو شخص اس مال فئی میں سے جو سب سے پہلے اللہ ہمیں عطا فرمائے اس کا بدلہ لینا چاہے۔ تو وہ اس شرط پر اپنا قیدی چھوڑ دے۔ سب نے کہا: ’’ہم بخوشی (بغیر معاوضہ کے) قیدی چھوڑتے ہیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں، لہٰذا تم لوگ چلے جاؤ پھر تمہارے سردار تمہاری مرضی سے تمہیں مطلع کریں۔ لوگ چلے گئے پھر ان کے سرداروں نے ان سے گفتگو کی، انہوں نے رضا مندی کا اظہار کیا۔ سرداروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: بطیب نفس اپنے قیدی چھوڑنے پر رضامندی ہیں۔ (12) (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی چھوڑ دئیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مسجد حرام میں