کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 237
’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرو۔‘‘ (9) ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ ہی میں تھے کہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایام جاہلیت میں ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی وہ مجھ پر باقی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پورا کرو۔ (10) اسی مقام پر ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: جو وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اسے پورا کیوں نہیں کرتے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بشارت قبول کرو‘‘ اس نے کہا: ’’بشارت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے (کچھ مال دلوائیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا: ’’اس شخص نے بشارت کو قبول نہیں کیا تم اسے قبول کر لو‘‘ ان دونوں نے کہا: ’’ہم نے قبول کی‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دونوں ہاتھ دھوئے، کلی اور منہ دھویا۔ اس کے بعد فرمایا: ’’تم دونوں اسے پی لو، اپنے چہروں اور پسلیوں پر مل لو اور خوشخبری حاصل کرو۔‘‘ ان دونوں نے وہ پیالہ لے لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے پیچھے سے کہا: ’’اپنی والدہ کے لئے بھی بچا دو‘‘ یہ سن کر انہوں نے حضرت ام سلمہ زوجہ مطہرہ کے لئے کچھ پانی اس میں چھوڑ دیا۔ (11) اسی اثناء میں قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو گئے۔ مقام جعرانہ ہی میں وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے اپنے مال اور قیدی واپس کرنے کی درخواست کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال اور قیدی سب تقسیم کر چکے تھے اور اب لوگوں کی ملکیت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں مسلمانوں سے گفتگو کی۔ مسلمان اس بات پر راضی ہو گئے کہ قیدی یا مال دونوں میں سےایک