کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 236
ہے؟‘‘ انصار میں جو بڑے بڑے سمجھدار لوگ تھے۔ انہوں نے کہا اور وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے کہ ہم میں سے اہل عقل لوگوں نے یہ بات نہیں کہی ہے، ہاں چند نو عمر (ناسمجھ) لوگوں نے یہ بات کہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا ، پھر اللہ نے میرے ذریعے تمہیں ہدایت دی۔ تم متفرق تھے، اللہ نے میرے ذریعہ تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی۔ تم مفلس تھے، اللہ نے میرے ذریعہ تمہیں غنی کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات پر انصار یہ جواب دے رہے تھے: ’’اللہ اور اس کے رسول کا بہت بڑا احسان ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں کون سی چیز روکتی ہے کہ تم اللہ کے رسول کو جواب دو‘‘ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں یہی کہتے رہے: ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو تم بھی کہہ سکتے ہو (کہ ہم نے بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احسان کیا۔ انصار نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’میں ایسے لوگوں کو مال وغیرہ دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ قریب ہوتا ہے۔ یہ لوگ مصیبت میں ہوتے ہیں۔ میں ان کی حالت کی اصلاح چاہتا ہوں۔ اور ان کی تالیف قلبی کرتا ہوں، کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ لوگ مال و دولت بکریاں، اونٹ اور دنیا لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لے جاؤ، اللہ کی قسم جو چیز تم لے کر جا رہے ہو وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے کر جا رہے ہیں۔ اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ہوتا، اگر انصار ایک وادی میں چلیں اور باقی تمام دنیا دوسری وادی میں چلے تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ انصار استر ہیں اور باقی لوگ ابرا ہیں۔ یعنی استر کی طرح میرے جسم سے قریب تر انصار ہی ہیں۔ (ظاہری شان کے لحاظ سے ابرا اگرچہ اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن قرب استر ہی کو حاصل ہے) انصار نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہیں‘‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: