کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 235
لوگوں میں عمرو بن ثعلب رضی اللہ عنہ بھی ہیں، حضرت عمرو بن ثعلب کہتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔ (6) حضرت صفوان بن امیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ دئیے، پھر سو اونٹ دئیے۔ پھر سو اونٹ دئیے، وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو کچھ دیا، مجھے آپ سے سب سے زیادہ بغض تھا۔ اس کے بعد مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ (7) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے آدمیوں میں سے ہر ایک کو سو اونٹ دئیے۔ ایک منافق نے کہا: واللہ اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا اور نہ اللہ کی رضا طلب کی گئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ مسلم میں ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ان کو اس سے زیادہ تکلیف پہنچائی گئی، پھر بھی انہوں نے صبر کیا۔‘‘ (8) انصار میں سے بعض کم عقل نو عمر لڑکوں نے کہا: اللہ رسول اللہ کو معاف فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، اللہ کی قسم! یہ تو عجیب بات ہے ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے اور ہماری غنیمتیں ان کو لوٹائی جا رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور ان کے چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا۔ جب وہ سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے علاوہ اور کوئی تو (یہاں) نہیں ہے؟ انصار نے کہا: ’’ہمارا ایک بھانجا ہے اور کوئی نہیں ہے‘‘ مسلم میں ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بھانجا قوم ہی میں شمار ہوتا ہے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے پہنچی