کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 23
سے ایک کم نہ تھے۔ مسلم میں ہے (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف نظر دوڑائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ کفار کی تعداد ایک ہزار ہے اور مسلمان صرف تین سو انیس تو مسلمانوں کی قلیل تعداد اور بے سروسامانی دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سائبان میں تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا پھر اپنے بازوؤں کو لمبا کیا، عجز و انکساری سے دعا کی اور بارگاہ الٰہی میں عرض کی:
(اللهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ)
’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے ایفاء کر دے۔ اے اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘
بعد ازاں جب گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی اور نہایت زور کا رن پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:
(اللهم ان تهلك هذه العصابة اليوم لا تعبد اللهم ان شئت كم لم تعبد اليوم ابدا)
’’اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ! کیا تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تضرع و زاری سے دعا فرمائی یہاں تک کہ آپ کے دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر درست کی اور عرض کی (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) بس فرمائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دعا فرمائی ہے۔ ادھر اللہ نے فرشتوں کو وحی فرمائی:
(أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ) (26)
’’بےشک میں تمہارے ساتھ ہوں سو ایمان والوں کو جمائے رکھو میں ابھی کافروں کے دلوں میں دہشت ڈال دیتا ہوں۔‘‘