کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 228
’’پھر اللہ نے اپنی (طرف سے) طمانیت قلب نازل فرمائی اپنے رسول اور ایمان والوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور عذاب دیا ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا اور یہی بدلہ ہے کافروں کا۔‘‘ دشمن کا فرار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ان بھاگنے والوں کو زور سے پکارو۔ جس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اواز سنی، لبیک لبیک کہتا ہوا ایک دم مڑا۔ جس کا اونٹ نہ مڑ سکا وہ ڈھال اور تلوار لے کر اونٹ سے کود پڑا۔ اور جانوروں کو چھوڑ دیا۔ اس طرح آناً فاناً جانثاروں کا گروہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گیا۔ انہوں نے اس زور سے حملہ کیا کہ دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ابھی مومنین حنین ہی میں تھے کہ ایک دن جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صبح کا کھانا کھا رہے تھے۔ ایک شخص لال اونٹ پر سوار ہو کر آیا اس نے اونٹ کو بٹھا دیا۔ ایک تسمہ اس کی کمر سے نکالا اور اسے باندھ دیا۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ کھانا کھانے لگا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا جاتا تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ دشمن تیزی کے ساتھ دوڑا اپنے اونٹ کے پاس آیا، اس کا تسمہ کھولا پھر اسے بٹھایا۔ پھر اس پر سوار ہو کر اسے کھڑا کیا۔ پھر اسے تیزی کے ساتھ دوڑایا۔ ایک مسلمان نے ایک خاکی رنگ کی اونٹنی پر اس کا تعاقب کیا۔ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے پاس سواری نہیں تھی بہت سے پیادہ بھی تھے اور سازوسامان کے لحاظ سے بھی کمزور تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے پیدل ہی اس شخص کا تعاقب کیا وہ اس کے پیچھے بھاگے۔ بھاگتے بھاگتے وہ اونٹنی کے سرین کے پاس پہنچ گئے۔ پھر اور تیز دوڑ کر وہ اونٹ کے سرین کے پاس پہنچ