کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 226
فرمایا: ’’کعبہ کے رب کی قسم! کفار کو شکست ہو گئی، کعبہ کے رب کی قسم! کفار کو شکست ہو گئی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم! کفار کو شکست ہو گئی‘‘ کفار کا زور ٹوٹنے لگا وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے خچر کو تیز دوڑاتے ہوئے ان کا تعاقب کیا۔ الغرض کفار بھاگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دی اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ (13) فتح کے بعد ام سلیم نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ جو طلقاء ہمارے ساتھ ہیں۔ جو آپ کی معصیت کے باوجود بھاگے انہیں قتل کر دیجئے۔‘‘ (اس لئے کہ ان کا ایمان صحیح معلوم نہیں ہوتا اگر وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر نہ بھاگے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ام سلیم! اللہ کافی ہو گیا۔ اور اس نے بڑا احسان کیا (14) باوجود ان کے بھاگ جانے کے شاندار فتح فرمائی۔ اب کیا ضرورت ہے کہ انہیں سزا دی جائے۔‘‘ مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ اصل بھاگنے والے مکہ کے نومسلم تھے۔ یہ لوگ جلدباز تھے۔ جن میں استقامت پیدا نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی یہ مسلح تھے۔ اور ان میں دیہاتی لوگ بھی تھے۔ جنہیں جنگ سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ ان لوگوں کے بھاگنے کی وجہ سے میدان جنگ میں افراتفری پھیل گئی۔ کوئی کدھر چلا گیا کوئی کدھر۔ بھاگنے والوں کے ریلے میں نہ بھاگنے والے بھی کبھی آگے ہو گئے کبھی پیچھے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ’’جولۃ‘‘ (15) (جولانی کرنا) کی یہ بالکل صحیح ترجمانی ہے۔ جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ ان کے نام روایتوں میں محفوظ ہو گئے۔ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، قثم بن