کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 224
(حضرت عباس اور حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیز رفتاری کو روک دیا) مسلم میں ہے آپ نے حضرت عباس سے فرمایا: ’’اصحاب سمرہ یعنی (بیعت رضوان کرنے والوں) کو پکارو۔‘‘ حضرت عباس بلند آواز تھے۔ انہوں نے بلند آواز سے پکارا۔ اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟ پھر انصار کو آواز دی۔ پھر بنو حارث بن خزرج کو آواز دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود بنفس نفیس آواز دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داہنی طرف آواز دی۔ مسلم میں ہے: ’’اے مہاجرین! اے مہاجرین!‘‘ بخاری شریف میں ہے: اے انصار کی جماعت آواز کا سننا تھا کہ سب نے جواب دیا: ’’ہم حاضر ہیں اور سعادت حاصل کرتے ہیں ہم آپ کے سامنے ہی موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جائیں۔ (ہم بھاگے نہیں ہیں۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف آواز دی (اے مہاجرین!) اے انصار کی جماعت، آواز سن کر سب نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ (اور سعادت حاصل کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ (ہم بھاگے نہیں ہیں) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم میں ہے) اور حضرت عباس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس طرح آئے جس طرح گائے اور بچوں کی طرف آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو صف بستہ کیا اور فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔ لڑائی دوبارہ شروع ہوئی (مسلم میں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گردن کو بلند کرتے اور لڑائی کا منظر دیکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تنور ہے‘‘ (یعنی لڑائی کے جوش مارنے کا وقت ہے) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی لڑائی کا منظر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لڑائی بڑی شدت سے جاری ہے۔ حضرت براء (جو اس وقت بالکل نوجوان تھے) فرماتے ہیں جب لڑائی بہت شدت اختیار کرتی اور خونخوار ہو جاتی تو ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں لے جاتے۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو جاتے اور پھر آگے بڑھ