کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 223
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کو حنین کی لڑائی میں دیکھا تو اس وقت دونوں گروہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سو آدمی بھی نہ تھے۔ (10) غرضیکہ کچھ لوگ بھاگ رہے تھے، کچھ ادھر کچھ ادھر منتشر ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ کفار نے آپ کو اکیلا دیکھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے (اتنے میں) مسلم شریف میں ہے: ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور پھر برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کو تنہا نہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہباء نامی خچر پر سوار تھے۔ جو فروہ بن تقاشہ جزامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتاً بھیجا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو کفار کی جانب بھگا رہے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے لگام پکڑی اور خچر کو تیز بھاگنے سے روکنے لگے۔ حضرت ابو سفیان بن حارث نے آپ کی رکاب پکڑی۔ بخاری شریف میں ہے: ’’اور کبھی وہ لگام پکر لیتے تھے‘‘ حضرت براء فرماتے ہیں: ’’اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہادر اور جنگجو کوئی دیکھنے میں نہ آیا۔‘‘ غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی طرف مسلسل بڑھ ہی رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: انا النبي لا كذب --- انا ابن عبدالمطلب ’’میں نبی ہوں، اس میں کچھ جھوٹ نہیں --- میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فوج کی افراتفری سے ہمت نہیں ہاری اور اس دعویٰ نبوت کو بھی دہراتے رہے جس دعوے کی وجہ سے یہ جنگیں پیش آ رہی تھیں، نہ ہی اس دعوے سے دستبردار ہوئے اور نہ گھبرائے۔ بلکہ نبوت کے اعتبار سے بھی، اور خاندانی اعتبار سے بھی اپنا تعارف کراتے رہے۔ اپنا تعارف کرانا اور تن تنہا کفار کی طرف اپنے خچر کو بھگانا شجاعت کی بہترین مثال ہے۔