کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 222
سوار اپنے گھوڑے کی پشت پر ٹھہر نہ سکے۔ (اتر گئے یا گر گئے) گھوڑوں کی پیٹھیں خالی ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئے۔ علاوہ (کافی تعداد میں) وہ لوگ جن کو فتح مکہ کے موقع پر معافی دی گئی تھی اور وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دیہاتی تھے۔ ان میں سے نوجوان، جلدباز لوگ جن کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے۔ بھاگے (ان کے ساتھ) دیہاتی بھی بھاگے، ان لوگوں کے بھاگنے سے مسلمانوں میں افراتفری پھیل گئی (آگے والوں کے پیچھے مڑ کر بھاگنے سے پیچھے والے بھی جم نہ سکے) ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں اکیلے رہ گئے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان کو دیکھا وہ ایک مشرک سے لڑ رہا ہے۔ اور وہ مشرک اس پر غالب آ گیا ہے وہ گھوم کر جلدی سے اس کے پیچھے آئے اور اس کے شانے پر تلوار ماری۔ اسی ضرب سے اس کی زرہ کٹ گئی۔ وہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہو گیا۔ اور اس نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر اس زور سے بھینچا کہ وہ مرنے کے قریب ہو گئے لیکن حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی ضرب کاری تھی وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور اس کی موت پہلے واقع ہو گئی۔ اس کے مرتے ہی حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ چھوٹ گئے۔ اتنے میں ان کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، لوگوں کا کیا حال ہے؟ (یہ کیوں بھاگ رہے ہیں؟) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کا حکم اسی طرح ہے۔ (8) حضرت سلمہ بن اکوع بھی بھاگتے ہوئے لوٹے۔ ان کے پاس دو چادریں تھیں۔ ایک اوڑھ رکھی تھی اور دوسری باندھ رکھی تھی۔ اتنے میں ان کا تہہ بند کھلنے لگا تو انہوں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر کے (تہہ بند) باندھ دیا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے۔ ان کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اکوع کا بیٹا گھبرا کر لوٹا‘‘ (9)