کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 220
روایت ہے کہ حنین کی جانب چلتے چلتے بعض لشکریوں کو ایک بڑا سرسبز و شاداب درخت نظر آیا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! جس طرح کفار ’’ذات انواء‘‘ (1) کو مانتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی ایک درخت کو ماننے کا موقع دیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر‘‘ یہ تم نے ایسی بات کہی جیسی بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ((اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ)) (2) ’’ہمارے لئے بھی ایسا ہی معبود بنا دیجئے جس طرح کافروں کے معبود ہیں‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ((إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿١٣٨﴾)) ’’تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس راستے میں یہ درخت اب تک موجود ہو یہ بھی سراغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن نے ایک آخری اور فیصلہ کن جنگ کی تیاری کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے مقابلے کے لئے مکہ مکرمہ سے کوچ کا حکم دیا۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں بیٹھ کر ان حملوں کا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ اس صورت میں حدود حرم کے اندر خونریزیاں یقیناً ہوتیں جو کہ اس مقدس مقام کی حرمت و عزت کے صریحاً منافی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نشیبی علاقہ کداء کی طرف سے مکہ مکرمہ سے نکلے (3) اور مقام حنین کی طرف روانہ ہو گئے۔ (4) دس ہزار سے زیادہ مجاہدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے (5) اور اسی کثرت کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا: (وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ) (سورۃ التوبہ: آیت 25) ’’اور حنین کے دن جب تمہاری کثرت نے تمہیں گھمنڈ میں ڈال دیا۔‘‘ اسلامی لشکر حنین کے مقام پر پہنچ گیا، ابوداؤد میں ہے: حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی ایک خنجر لے کر میدان جنگ میں پہنچی (ان کے شوہر) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! یہ ام