کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 219
اوطاس نہیں مانا جا سکتا۔ جس کا ذکر جنگ حنین کی روایتوں میں آیا ہے۔ یا اس اوطاس کا مقام و محل نادرست ہے۔ میرے نزدیک حنین کے تعین کا ایک بدیہی قرینہ یہ ہے کہ معلوم کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ حنین کے بعد کس راستے سے طائف گئے۔ اس قرینے سے کام لے کر ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے وہ مقام متعین کر لیا جسے زیادہ سے زیادہ صحیح مانا جا سکتا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے بعدحنین سے نخلۃ الیمانیہ گئے، پھر قرن ملیح ہوتے ہوئے وادی لیہ کے مقام بحرۃ الرغا (یا بحرہ) میں پہنچے، جہاں ایک روز قیام فرمایا۔ ایک مسجد تعمیر کرائی جس میں نماز پڑھی۔ نیز بنولیث کے ایک آدمی کو قصاص میں موت کی سزا دلائی جس نے بنو ہذیل کے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ لیہ میں مالک بن عوف النصری (رئیس اعظم ہوازن) کا قلعہ تھا۔ جسے منہدم کرا دیا۔ وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے نخب پہنچے جو الضیقہ کے نام سے مشہور تھا۔ پھر طائف کے قریب نزول فرمایا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے اس بدیہی قرینے کے مطابق مکہ مکرمہ سے قرن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا نقشہ یوں بنایا۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے جعرانہ ہوتے ہوئے غنیم کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ جنگ حنین جعرانہ اور نخلۃ الیمانیہ کے درمیان ہوئی۔ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے حنین کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے تیس اور چالیس میل کے درمیان بتایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حنین کو مکہ اور طائف کے راستے یا راستوں پر نہیں بلکہ اسے مکہ سے شمال مشرق اور طائف سے شمال مغرب میں تلاش کرنا چاہیے۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب خود حنین تک نہ جا سکے۔ ورنہ زیادہ مثبت اور قطعی شواہد مہیا ہو جاتے۔ ایک قرینہ اور بھی ہے۔ اگرچہ اس کی حیثیت زیادہ محکم نہ ہو۔ ابن ہشام کی