کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 213
دیتا‘‘ خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس نے بڑی اچھی توبہ کی اور نکاح کر لیا۔ وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کرتی تھی اور وہ اس کی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا کرتی تھیں۔ (37) فتح مکہ سے پہلے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تھے۔ لیکن مسلمان انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اور نہ ان کے ساتھ نشست و برخاست کرتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! میری تین درخواستیں قبول فرمائیے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا‘‘ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی تمام عورتوں سے زیادہ حسین و جمیل ہے۔ میں اس کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہوں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا‘‘۔ حضرت ابو سفیان نے کہا: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب بنا لیجئے‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اچھا‘‘۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مجھے سپہ سالار بنا دیجئے تاکہ جس طرح میں مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ اسی طرح کافروں سے لڑوں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا‘‘۔ (38) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر بنو خزیمہ کی طرف روانہ کیا، حضرت خالد نے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے جواب میں بجائے اسلمنا (ہم نے اسلام قبول کیا) صبانا (ہم بے دین ہو گئے یا ہم نے دین بدل دیا) کہنا شروع کر دیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے غلط فہمی سے انہیں کافر سمجھ کر کچھ کو قتل کر دیا اور کچھ کو گرفتار کر لیا اور ایک ایک قیدی ہر مجاہد کے حوالے کر دیا۔ پھر ایک دن انہوں نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! نہ میں اپنے قیدی کو قتل کروں گا اور نہ میرے ساتھی‘‘ (کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ لوگ ایمان