کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 210
ہے اور نیت باقی رہ گئی ہے (نیت یہ رکھے کہ جب کبھی ہجرت کی ضرورت ہو گی تو ہجرت کروں گا) جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو۔ بےشک اللہ نے اس شہر کو اس دن سے حرمت دی ہے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور وہ اللہ کی دی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لئے حرام ہے۔ بےشک اللہ نے مکہ سے ہاتھی (والوں) کو روک دیا تھا۔ لیکن اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو اہل مکہ پر تسلط دے دیا۔ خبردار ہو جاؤ نہ مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لئے یہاں خونریزی حلال ہوئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گی، خبردار ہو جاؤ، میرے لئے بھی کچھ دیر کے لئے حلال ہوئی تھی۔ خبردار ہو جاؤ، اب اس گھڑی وہ دستور قیامت تک کے لئے حرام ہے، نہ یہاں کا کانٹا توڑا جائے، نہ شکار بھگایا جائے (یعنی یہاں شکار کو بھگا کر حدود حرم سے باہر نہ لے جایا جائے تاکہ وہاں اس کو شکار کر لے) اور نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ اس کا اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔ جس کا کوئی عزیز قتل ہو جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار حاصل ہے۔ خواہ بدلہ لے یا فدیہ لے لے‘‘ حضرت عباس نے کہا: ’’اللہ کے رسول! اذخر گھاس کو مستثنیٰ کر دیجئے کیونکہ وہ ہمارے گھروں میں کام آتی ہے۔ لوہاروں اور قبروں کے کام آتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مگر اذخر متاخر یعنی اذخر مستثنیٰ ہے اسے کاٹا جا سکتا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو یمن کا ایک شخص جسے ابو شاہ کہتے تھے، آگے آیا، اس نے کہا: ’’اللہ کے رسول! یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ خطبہ) ابو شاہ کو لکھ کر دے دو۔‘‘ (30) فتح کے دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خطبہ دیا۔ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’یقیناً مکہ کو اللہ نے حرمت دی ہے نہ کہ