کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 21
پوچھتے تو پھر وہی بات کہتا کہ میں ابو سفیان کے متعلق کچھ نہیں جانتا البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ تو یہاں موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا تو صحابہ کرام اسے پھر مارتے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا: ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب وہ سچ بولتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑ دیتے ہو‘‘۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے، اور یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے۔ جنگ کے بعد دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ (21) قرآن حکیم میں ہے: (إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَـٰكِن لِّيَقْضِيَ ا للّٰهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ وَإِنَّ ا للّٰهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾) (22) ’’جب تم (میدان جہاد کے) قریب والے کنارے تھے اور (تجارتی) قافلہ تم سے نیچے اُتر گیا تھا اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو وقت مقرر (پر پہنچنے) میں ضرور مختلف ہو جاتے لیکن یہ اس لئے کہ اللہ پورا کر دے وہ کام جو ہونے والا تھا تاکہ ہلاک ہو جائے جسے ہلاک ہونا ہے دلیل پر اور زندہ رہے جسے زندہ رہنا ہے دلیل سے اور بےشک اللہ ہے ضرور سننے والا سب کچھ جاننے والا۔‘‘ صحابہ کرام کے پاس آلاتِ حرب نہ ہونے کے برابر تھے اور وہ خود بھی تھوڑی تعداد میں تھے۔ ارشاد ربانی ہے: (وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ ا للّٰهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ) (23) ترجمہ: ’’اور یقیناً اللہ نے