کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 209
اللہ علیہ وسلم ایک وہ وقت تھا کہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ ایسے نہیں تھے۔ جن کا ذلیل ہونا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے والوں کے ذلیل ہونے سے زیادہ محبوب ہو۔ اور آج یہ حالت ہے کہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ ایسے نہیں جن کا باعزت ہونا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے والوں کے باعزت ہونے سے زیادہ محبوب ہو‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری بھی یہی حالت ہے۔‘‘ پھر حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ابو سفیان ذرا بخیل آدمی ہے تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہو گا اگر میں ان کے مال میں سے اپنے بچوں کے لئے (بغیر اجازت) کچھ لے لوں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گناہ نہیں ہو گا مگر دستور کے مطابق (لینا)‘‘ (28) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف صحابہ کا جم غفیر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، کسی پر بہتان نہ لگاؤ گے، معروف کاموں میں میری نافرمانی نہ کرو گے، پھر جس نے اس بیعت کو پورا کیا، تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اور جس نے اس میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور اس کو دنیا میں سزا مل گئی تو وہ اس کے لئے کفارہ ہو جائے گی اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اسے کو پوشیدہ رکھا تو پھر اللہ کے اختیار میں ہے، خواہ اسے معاف کرے خواہ اسے سزا دے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان باتوں پر بیعت کی۔ (29) قبیلہ بنو خزاعہ نے بنو لیث کے ایک آدمی کو اپنے آدمی کے بدلہ میں قتل کر دیا۔ اس قتل کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی۔ خبر سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ حمد و ثناء کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اب ہجرت نہیں رہی، لیکن جہاد باقی رہ گیا