کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 207
مسلمان کو قتل کر ڈالا تھا۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مقابلہ حجون میں آپ کا جھنڈا نصب کیا گیا۔ (24) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس پہنچے تو عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو کعبہ کی کنجی لانے کا حکم دیا۔ اور وہ اپنی والدہ کے پاس گئے۔ (اور ان سے کنجی مانگی) والدہ نے کنجی دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: (مسلم میں ہے) ’’کنجی تو بہرحال تمہیں ضرور دینا ہو گی، ورنہ یہ تلوار میری پیٹھ سے پار ہو جائے گی‘‘ یہ سن کر ان کی والدہ نے کنجی دے دی۔ وہ کنجی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور کنجی آپ کو دے دی۔ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا۔ کعبہ کے اندر چاروں طرف تین سو ساٹھ (360) بت رکھے ہوئے تھے۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مورتیں بھی شامل تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بتوں کی موجودگی میں) کعبہ کے اندر جانے سے انکار کر دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی مورتیں دیکھ کر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! انہیں بھی معلوم ہے کہ ان دونوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی (باہر ہی سے) آپ بتوں کو لکڑی مارتے اور فرماتے: (جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾) ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے لئے ہے۔‘‘ (جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ﴿٤٩﴾) ’’حق آ گیا باطل (معبود) نہ پہلی بار پیدا کر سکتا ہے نہ دوسری بار۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو نکالنے کا حکم دیا۔ تمام بت باہر نکال دئیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ