کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 206
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہی بات ہے تو بتاؤ میرا نام کیا ہے؟‘‘ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے، پھر فرمایا: ’’ہرگز ایسا نہیں ہے۔ (جیسا تم سمجھتے ہو) میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ (رسول کی حیثیت سے ہی میرے اقوال و افعال صادر ہوتے ہیں نہ مکی اور قریشی ہونے کی حیثیت سے) میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ اب میری زندگی تمہارے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یعنی وطن اور خاندان کوئی چیز نہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی انصار روتے ہوئے آگے بڑھے اور عرض کیا: ’’اللہ کی قسم ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص اور محبت میں کہا ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں‘‘ (20) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصویٰ اونٹنی پر سوار ہو کر کداء یعنی مکہ مکرمہ کی بلندی کی طرف سے شہر میں داخل ہوئے۔ اس وقت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھینچ کھینچ کر سورۃ فتح تلاوت فرما رہے تھے۔ (21) حضرت خالد بھی اپنے دستہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی بلندی کی طرف سے شہر میں داخل ہوئے۔ اس دستہ کے دو آدمی جیش ابن الاشعر رضی اللہ عنہ اور مکرز بن جابر الفہری کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ (22) شہر میں داخلہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا۔ مسلم میں ہے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتار کر سیاہ عمامہ باندھ لیا) اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا: ’’ابن اخطل کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے قتل کر دو‘‘ (23) (ابن اخطل کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مرتد ہو گیا تھا اور اس کے بعد