کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 205
ہوئے ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر اشارہ کیا اور فرمایا: ’’کل جب ان سے مقابلہ شروع ہو تو ان کو کھیتی کی طرح کاٹ دینا اور پھر مجھ سے کوہ صفا پر آ کر ملنا‘‘ انصار یہ حکم سن کر روانہ ہوئے، پھر جو انصاری جس شخص کو قتل کرنا چاہتا قتل کر دیتا۔ قریش کے اوباشوں میں سے کوئی بھی انصار سے مقابلہ کرنے کی جراءت نہ کر سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر پہنچ گئے۔ اتنے میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول! قریش کی جماعت ختم ہو جائے گی۔ آج کے بعد قریش میں سے کوئی باقی نہ رہے گا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائے وہ امن میں ہے۔ جو ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے۔ جو اپنا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہیں‘‘ یہ سن کر کچھ لوگ ابو سفیان کے مکان میں داخل ہو گئے۔ اور کچھ لوگوں نے اپنے مکانوں کے دروازے بند کر لئے۔ (اعلان امن کے بعد) انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ اور صفا پہاڑ کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ (امن کے اعلان سے انصار کو غلط فہمی ہوئی) کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وطن کی محبت غالب آ گئی اور اپنے خاندان پر ترس آ گیا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع ہو گئی۔ اور جب وحی نازل ہوتی تھی تو صحابہ پہچان لیتے تھے۔ اور جب تک وحی نازل ہوتی رہتی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہ سکتا تھا۔ جب وحی ختم ہو گئی (تو وہ کیفیت جاتی رہی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے گروہ انصار‘‘ انہوں نے کہا: ’’لبیک یا رسول اللہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم نے یہ بات کہی تھی کہ اس شخص کو اپنے وطن کی اُلفت اور عزیزوں کی محبت غالب آ گئی‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! بےشک‘‘ (ہم نے یہ بات کہی تھی) رسول