کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 201
بڑی قدرت والا ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ غرض یہ کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہا کہ خبردار! آئندہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے کفار سے دوستانہ تعلقات مت قائم کریں۔ اور نہ ہی ان کی خیرخواہی کی جائے، اسلام اور اسلامی ریاست کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ انہیں ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔ رمضان کے مہینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع دس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ روزے رکھ رہے تھے اور بعض صحابہ روزے نہیں رکھ رہے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدید کے چشمہ پر جو قدید اور عسفان کے درمیان ہے پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دودھ یا پانی کا ایک گلاس منگوایا اور اپنی سواری پر بیٹھے بیٹھے روزہ افطار کر لیا۔ سواری پر بیٹھے بیٹھے روزہ افطار کر لینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ دیکھ لیں گے کہ آپ نے روزہ افطار کر لیا ہے۔ (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں وہ بھی افطار کر لیں) جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ افطار کرتے دیکھا تو جن کا روزہ نہیں تھا۔ انہوں نے روزے داروں سے کہا: ’’افطار کر لو‘‘ (سوائے چند کے) سب نے افطار کر لیا (مسلم میں ہے کہ جن لوگوں نے افطار نہیں کیا تھا ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ گناہ گار ہیں‘‘) اس لئے کہ انہوں نے سنت کی پیروی نہیں کی۔ پھر آخر رمضان تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا۔ (14) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو کسی نے آپ سے سوال کیا کہ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں قیام فرمائیں گے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں اتریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا عقیل نے کوئی مکان چھوڑا ہے؟ (جس میں ہم قیام کریں) اس نے تو سب مکان بیچ ڈالے‘‘ عقیل اور