کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 198
سوار ہے۔ اس کے پاس ایک خط ہے۔ وہ اس سے لے لینا۔ ہم بہت جلدی اپنے گھوڑے دوڑا کر روضہ خاخ میں جا پہنچے اور اچانک اس عورت کو جا لیا۔ ہم نے اس سے کہا: اے عورت وہ خط نکال جو تو لائی ہے۔ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا نہیں ضرور خط نکال ورنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے۔ یعنی تجھ کو ننگا کر کے خط وصول کر لیں گے۔ اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی میں سے نکال کر دیا۔ ہم اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کو لکھا گیا تھا۔ (5) اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض خبریں مکہ کے مشرکوں کو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے لکھی تھیں۔ آپ نے ان سے کہا: یہ کیا بات ہے، اے حاطب، حاطب نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر جلدی نہ فرمائیے یعنی سزا دینے میں ’’میری گزارشات سن لیجئے‘‘ میں قریش کا حلیف تو ضرور ہوں لیکن ان پر میری رشتہ داری نہیں۔ دوسرے مہاجرین کے رشتہ دار مکہ میں موجود رہیں، رشتہ کی وجہ سے وہ ان مہاجرین کے اقارب و اموال کی نگہداشت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ میری رشتے داری نہیں ہے تو کوئی احسان ان پر ایسا کروں جس کے بدلہ میں وہ میرے اقارب کی حفاظت اور نگہداشت کریں، اس نے یہ بات نہ کفر کی وجہ سے کی ہے نہ ارتداد کی وجہ سے (6) اور نہ اسلام لانے کے بعد کفر سے راضی ہو کر کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور حاطب نے سچ سچ بیان کر دیا اب ان سے کچھ نہ کہو۔ (اس حکم کی تعمیل میں کسی نے ان سے کچھ نہ کہا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے کچھ نہ کہا البتہ ان الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اجازت طلب کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے رسول اور مومنوں کی خیانت کی ہے۔ لہٰذا اجازت دے ہی دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں (7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں