کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 197
رکتے بھی نہیں تھے۔ (3) صلح حدیبیہ کے فوراً بعد کفار مکہ نے خلاف ورزیاں شروع کر دیں۔ ان بدعہدیوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو جنگ پر ابھارتے ہوئے فرمایا: (أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَا للّٰهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣﴾ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ ا للّٰهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ﴿١٤﴾ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ ا للّٰهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَا للّٰهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿١٥﴾) (4) ’’کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو بےوطن کرنے کا ارادہ کیا؟ حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے چھیڑ چھاڑ شروع کی تھی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ کا زیادہ حق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مسلمان ہو۔ ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور راحت پہنچائے گا مومنوں کے سینوں کو اور ان کے دلوں کا غم و غصہ دور کر دے گا اور اللہ رجوع برحمت ہوتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اللہ بہت جاننے والا نہایت حکمت والا ہے۔‘‘ مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں رسولِ خدا نے مومنوں کو ظالموں کے پنجے سے آزاد کرنے کا عزم فرما لیا۔ آپ نے اسی غرض سے مکہ پر حملہ کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو، زبیر رضی اللہ عنہ کو اور مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ بھیجا تو آپ نے فرمایا: چلو اور جاؤ حتیٰ کہ تم روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ، اس لئے کہ روضہ خاخ میں ایک عورت کجاوے میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر