کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 196
’’اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو (پھر دشمن کی طرف) جماعتیں بن کر جاؤ یا اکٹھے ہو کر چلو۔ بےشک تم میں کوئی وہ گروہ شامل ہے جو ضرور دیر لگائے گا۔ پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو کہنے لگے گا: کہ اللہ نے مجھ پر بڑا انعام کیا ہے کہ میں (لڑائی) میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔ اگر مل جائے تمہیں اللہ تعالیٰ کا فضل (مال غنیمت) تو ضرور کہے گا: اے کاش! میں بھی ان کے ساتھ ہوتا، تو بڑی کامیابی حاصل کر لیتا (اس انداز میں) کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی۔ تو ان لوگوں کو اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے جو کہ آخرت کے عوض دنیا کی زندگی فروخت کر چکے ہیں اور جو لڑے اللہ کی راہ میں پھر قتل ہو جائے یا غالب آ جائے تو عنقریب ہم اسے بڑا اجر دیں گے اور (مسلمانوں) تمہیں کہا ہے کہ تم لڑو اللہ کی راہ میں۔ حالانکہ بےبس کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں میں سے وہ ہیں جو دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور اپنے پاس سے ہمارے لئے کوئی کارساز بنا دے اور کر دے کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار۔ دراصل قریش ایک ایسے چکر میں پڑ گئے، جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ انہیں سوجھتا نہ تھا۔ ان میں لڑنے کی تاب نہیں رہی تھی۔ ان کی معاش تجارت پر موقوف تھی۔ تجارت امن و امان کی متقاضی تھی۔ لڑائیوں نے اس کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ اسلام کا حلقہ قریش کی سختیوں اور شدتوں کے باوجود پھیل رہا تھا۔ مدینہ منورہ میں اسلام کی تنظیمی معجز نمائی نے ایسی صورت پیدا کر دی کہ دیکھنے والوں کو صاف نظر آ رہا تھا، اب آخری فیصلہ برسوں نہیں مہینوں کی بات ہے۔ جھوٹے غرور و تکبر نے قریش میں اعتراف حقائق کی صلاحیت بھی باقی نہ رہنے دی تھی وہ کھلم کھلا مقابلے سے پہلو بچاتے تھے، لیکن جہاں انہیں ایسا موقع نظر آ جاتا کہ چھپ چھپا کر مسلمانوں کے خلاف کینہ و بغض کا اظہار کر سکیں وہاں