کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 195
کی تلواریں اور ان کی برچھیاں برابر مسلمانوں کے سر و سینہ پر برستی رہیں۔ ہجرت کے بعد بھی چھ سال تک مسلمان جا بجا خون شہادت و جراحت میں تڑپتے رہے۔ حدیبیہ میں پہلی مرتبہ قریش مجبور ہوئے کہ کم از کم دس سال تک صلح کر لیں۔ یوں انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے مؤقف سے دست برداری اختیار کی اور مسلمانوں کو اطمینان کے ساتھ اسلام کی پرامن اشاعت کا موقع ملا۔ اس معاملے میں غوروفکر کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ جو شرائط حدیبیہ میں طے ہوئیں تھیں۔ ان میں بعض کے الفاظ کی ظاہری حیثیت کیا تھی؟ بنیادی پہلو یہ تھا کہ آزادی اعتقاد و ضمیر کے بارے میں صبر و قوت کس کا مؤقف تھا؟ نیز کون اس مؤقف سے (عارضی طور پر سہی) دستبردار ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ اس اعتبار سے یقیناً ’’فتح مبین‘‘ تھی۔ (1) صلح حدیبیہ کے بعد بھی کفار کے مظالم کم نہیں ہوئے۔ وہ ان کمزور مسلمانوں پر جو کہ مکہ میں قید تھے، ظلم کرتے رہتے تھے۔ ان مسلمانوں کی رہائی کے لئے جہاد ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد پر ابھارتے ہوئے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا ﴿٧١﴾ وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ ا للّٰهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا ﴿٧٢﴾ وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰه لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧٣﴾ فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّٰه الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّٰه فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿٧٤﴾ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰه وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴿٧٥﴾) (2)