کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 191
کے ہاتھ پر فتح دی (8) فتح کے بعد شہداء کی لاشوں کو تلاش کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں جعفر بن ابی طالب کی لاش مقتولین میں سے ملی۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے جسم پر نوے سے زیادہ زخم تھے۔ جن میں پچاس صرف آگے کی طرف تھے۔ (9) حضرت خالد نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ قبیلہ حمیر کے ایک شخص نے ایک کافر کو قتل کیا تھا۔ اس نے مقتول کا سامان لینا چاہا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عوف بن مالک نے کہا: ’’اے خالد کیا تمہیں نہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کو (مقتول کا) سامان دلوایا ہے‘‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے؟ مگر مجھے یہ سامان بہت معلوم ہوتا ہے۔‘‘ تقسیم کے بعد لشکر اسلام فاتحانہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ مدینہ منورہ کی طرف پہنچے تو حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قاتل کو مقتول کا سامان دینے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تم نے قاتل کو مقتول کا سامان کیوں نہ دیا؟‘‘ حضرت خالد نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! میں نے اس سامان کو بہت زیادہ سمجھا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دے دو‘‘ جب خالد رضی اللہ عنہ حکم کی تعمیل کے لئے روانہ ہوئے تو عوف کے سامنے سے گزرے، حضرت عوف نے ان کی چادر کھینچ کر کہا: ’’جو میں نے کہا تھا وہی ہوا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عوف کی یہ بات سن لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: اے خالد اسے مت دو۔ اے خالد! اسے مت دو، پھر فرمایا: ’’کیا تم میرے امراء کو نہیں چھوڑتے (کیوں انہیں اشتعال دلاتے ہو، کیوں ان کی توہین کرتے ہو) تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے اونٹ اور بکریاں چرانے کے لئے لیں۔ پھر ان کی پیاس کا