کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 183
قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے‘‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھے وہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ’’اے عبداللہ بن قیس‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں ضرور بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ (37) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی قریٰ میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام مدھم کے، جس کو بنو صنباب نامی قبیلہ کے ایک شخص رفاعۃ بن زید نے آپ کو تحفتاً دیا تھا۔ ایسی حالت میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی کاٹھی ٹھیک کر رہا تھا، ایک تیر لگا جس کا چلانے والا معلوم نہ ہو سکا۔ اس تیر سے اس کی موت واقع ہو گئی، لوگوں نے کہا: ’’اس کو شہادت مبارک ہو‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، وہ چادر جو خیبر کے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے اس نے چرا لی تھی۔ وہ اس پر آگ کو مشتعل کر رہی ہے‘‘ یہ سن کو ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا اور کہا: ’’یہ چیز مجھے ملی تھی (اور تقسیم سے پہلے میں نے لے لی تھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آگ کے ایک یا دو تسمے ہیں۔ (38) راستے میں صحابہ کرام کا گزر لہسن و پیاز کے ایک کھیت سے ہوا۔ صحابہ بھوکے تھے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں نے لہسن اور پیاز کھایا۔ (39) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف نظر