کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 182
دوں گا‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تم پہرہ دو۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سو گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے رہے۔ جب فجر قریب ہوئی تو وہ اپنی سواری پر تکیہ لگا کر مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ بیٹھے بیٹھے ان پر نیند غالب آ گئی اور ان کی آنکھ لگ گئی، صبح کی نماز کا وقت نکل گیا۔ جب دھوپ نکلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی۔ آپ بہت گھبرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بلال! تمہارا وہ کہنا کہاں گیا؟‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں جس چیز کو آپ نے روک لیا تھا۔ اس نے مجھے بھی روک لیا تھا، ایسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہاری روحوں کو جب تک چاہا روکے رکھا اور جب چاہا واپس کر دیا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہاں سے کوچ کرو، یہاں شیطان آ گیا تھا‘‘ (لوگ روانہ ہوئے) تھوڑی دور جا کر جب آفتاب بلند اور صاف ہو گیا ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حکم دیا، پھر وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا، انہوں نے کلمہ اقامت کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا: ’جو شخص نماز پڑھتے بھول جائے اسے چاہیے کہ یاد آتے ہی اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾)) ’’میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘ (36) اثناء راہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی میں سے گزرے تو لوگوں نے چیخ چیخ کر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ کہنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ’’اپنی جانوں پر رحم کرو، تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ کسی غائب کو، تم سننے والے کو پکار رہے ہو جو تمہارے