کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 180
کے ساتھ دوڑایا۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی سواریوں کو دوڑایا۔ اتفاقاً آپ کی اونٹنی نے ٹھوکر کھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اس پر سے گر پڑے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً اپنی سواری پر سے اترے اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، خاتون کو سنبھالو، حضرت ابو طلحہ اپنے منہ پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف گئے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جلدی سے کھڑے ہو گئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پر پردہ تان دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پالان ٹھیک کر کے اونٹنی پر سوار ہو گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ اس سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ادباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف نظر نہیں کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ آگے روانہ ہوئے۔ (33) فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا۔ یہودیوں نے عرض کیا: ’’ہمیں رینے دیجئے، ہم کھیتوں میں اور باغوں میں کام کریں گے اور نصف پیداوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا کریں گے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا، لیکن جب تک ہم چاہیں گے تمہیں (اس شرط اور اس مقام پر) برقرار رکھیں گے‘‘ (34) تمام ضروری انتظامات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ خیبر سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ رجز سناؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجز سنانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’جو کچھ کہو سوچ سمجھ کر سنانا‘‘ حضرت سلمہ بن اکوع نے یہ رجز پڑھا:؎ واللّٰه لو لا اللّٰه ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا