کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 179
سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کے لئے مناسب نہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: ’’ان کو مع اس لڑکی کے بلاؤ‘‘ وہ آئے تو آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا اور حضرت دحیہ سے فرمایا: اے دحیہ رضی اللہ عنہ! دوسری لونڈی لے لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے سات لونڈیوں کے بدلے میں ان سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو خرید لیا اور اپنے لئے منتخب فرما لیا۔ حضرت صفیہ کو آپ نے اپنے لئے ان کے حسن و جمال کی وجہ سے بطور بیوی منتخب نہیں فرمایا تھا بلکہ مشورہ اور لوگوں کے نفسیاتی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں کیا تھا۔ (32) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سید الصبہاء پہنچے تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پاک ہو چکی تھیں۔ حضرت ام سلیم نے انہیں دلہن بنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا (دوسرے دن) صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز جس کے پاس ہو لے آؤ۔ پھر گڑھا کر کے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھایا گیا۔ کوئی کچھ لایا اور کوئی کچھ۔ اس دسترخوان پر کھجور، پنیر اور گھی جمع کر دیا گیا۔ پھر ان چیزوں کا مالیدہ تیار کیا گیا۔ مالیدہ تیار ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’جو لوگ تمہارے اردگرد ہیں سب کو بلا لاؤ‘‘ وہ سب لوگوں کو بلا کر لے آئے۔ سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ تین دن وہاں قیام کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عباء اوڑھا دی، اونٹنی پر ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی اور پردہ تان دیا۔ جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اونٹنی پر سوار ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی کے پاس بیٹھ جاتے۔ اپنا گھٹنا رکھ دیتے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پیر آپ کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔ مدینہ منورہ کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی عضباء کو تیزی