کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 174
دُکھ رہی ہیں (16) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کو لانے کے لئے روانہ کیا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لائے (17) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور صحت کے لئے دعا کی پھر وہ آپ کی دعاؤں کی برکت سے اسی وقت تندرست ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انہیں کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ (18) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’کیا میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جاؤ، ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور فرائض کی تعلیم دو۔ اللہ کی قسم تیرے ہاتھ پر اگر اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جھنڈا لے کر میدان جنگ میں آئے۔ مرحب وہی رجز پڑھتا ہوا میدان جنگ میں آیا۔ جو اس نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے وقت پڑھا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ رجز پڑھا: انا الذي سمتني امي حيدره كليث غابات كريه المنظره اوفيهم بالصاع كيل السندره ’’میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ میں جنگل کے اس شیر کی طرح ہوں۔ جو بہت ہی خوفناک صورت ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔‘‘ (20) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے قتل کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خیبر فتح ہو گیا (21) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے