کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 171
والا۔ مقابلہ شروع ہوا دونوں کی ضربیں ایک دوسرے پر پڑنے لگیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مرحب کی تلوار حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی ڈھال پر پڑی، انہوں نے نیچے سے اس کی پنڈلی پر تلوار ماری مگر ان کی تلوار چھوٹی تھی وہ لوٹ کر خود ان ہی کے لگ گئی اور اس سے ان کی شہ رگ کٹ گئی بالآخر اس زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔ (9) پھر جب حضرت سلمہ بن اکوع مقابلہ کے لئے نکلے۔ انہوں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’عامر رضی اللہ عنہ کا عمل رائیگاں ہو گیا کیونکہ انہوں نے خودکشی کر لی‘‘ حضرت عامر رضی اللہ عنہ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے، لہٰذا حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کی اس بات پر صدمہ پہنچا۔ وہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کے پاس جا کر خاموش کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ حضرت سلمہ نے کہا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، لوگ کہتے ہیں کہ عامر رضی اللہ عنہ کے سب عمل برباد ہو گئے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون کہتا ہے؟ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’فلاں شخص، فلاں شخص اور اسد بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو ایسا کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے‘‘ پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو جمع کر کے فرمایا: ’’ان کے لئے دوہرا ثواب ہے۔ وہ اطاعت الٰہی میں کوشش کرنے والے اور مجاہد تھے ان جیسے عرب کم ہی زمین پر چلے ہوں گے۔‘‘ (10) اسی زمانہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے اپنے وطن سے روانہ ہوئے، ان کا غلام بھی ان کے ہمراہ تھا۔ راستہ میں ان کا غلام ان سے علیحدہ ہو گیا۔ حضرت ابو ہریرہ برابر چلتے رہے راستہ میں یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے: